جب محبت اداس کرتی ہے
مجھ کو فطرت شناس کرتی ہے
۔
اسکے ہونٹوں کی مر مریں جنبش
اب سدا، بے حواس کرتی ہے
۔
رُخِ زیبا نہ دیکھ لے کوئی
جھُک کے آنچل، لباس کرتی ہے
۔
اپنی قسمت میں ڈھونڈنے مجھ کو
کچھ ستاروں کو پاس کرتی ہے
-
اپنے ہاتھوں میں ڈوب کر پہروں
مجھ کو پانے کی آس کرتی ہے
۔
اس کے دیدار کی تمنا نے
کِیا وہی ہے، جو پیاس کرتی ہے
۔
تُو جو دے بھر کے پیمانہ
زندگی تب سپاس کرتی ہے
۔
چپ کرانا ہو گر چکوری کو
چاند پر پھر قیاس کرتی ہے
۔
گل کو دینا ہو گر دلاسہ تو
بات شبنم کے پاس کرتی ہے
۔
اس کی بانہوں میں زندگی عمران
دل دھڑکنے کی آس کرتی ہے
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem