لکھے گی یہ گرد کہانی
یعنی دشت نورد کہانی
میں لکھنے سے عاجز ٹھہرا
لکھے گا ہر فرد کہانی
یخ بستہ چوپال ہوئی تو
پڑ گئی ساری سرد کہانی
بادل میں نے آج کہا تھا
مت سن میری درد کہانی
ہائے غم، مصیبت، تلخی
سب دردوں کا درد کہانی
صحرا میں بھی پھول کھلے ہیں
اپنی پھر بھی زرد کہانی
گلشن میں خاموشی چھائی
سن کر اپنی درد کہانی
ہر اک چہرہ ایک فسانہ
اور یہاں ہر فرد کہانی
دور تو ہے عمران دسمبر
لیکن جون میں سرد کہانی
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem