یہ جس پہ تم نے واہ کی صاحِب
یہ میرا درد میری آہ تھی صاحِب
جہاں سے ڈر کے تُم پلٹ آئے
بس تھوڑا آگے راہ تھی صاحِب
کہ ماہتاب تک تو کھو گیا مجھ میں
وہ تیرگی میرے ہمراہ تھی صاحِب
رہے تُم مضطرب جس کے نتیجے میں
وہ میرا پیار میری چاہ تھی صاحِب
جس راہ پر ہم منتظِر رہے برسوں
تمھارے لئے اک گزر گاہ تھی صاحِب
کہ بس فقیری کا اپنا مزاج غالب تھا
جلال تھا کسی کا نہ جاہ تھی صاحِب
تمھارا قد تھا زمانے میں معتبر عمرانؔ
تمھارے قدموں میں میری کُلاہ تھی صاحِب
محمد عمرانؔ چیمہ
۱۳ جون ۲۰۱۹
چیمہ ہاؤس
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem