کل شب تلک مَیں کیا تھا، اور کیا بنا دیا
مجھ ایسے ایک قطرے کو دریا بنا دیا
یا رب ترے کرم پہ، کیسے نہ جاؤں قرباں
اک بے نشان ذرے کو صحرا بنا دیا
دیوار کر دی حائل، آندھی کے درمیاں
طوفان کے مُقابِل، سفینہ بنا دیا
اک محسنہ نے پیار کا اظہار یوں کیا
اِس ہنستے بستے دہر کو گِریہ بنا دیا
اس زندگی کے سب سے نایاب دور میں
کیسی تری عطا ہے کہ، انساں بنا دیا
انجمؔ بھی اور ماہ بھی، گم تجھ میں آ ہوئے
تھا تُو بھی اک ستارہ، کہکشاں بنا دیا
عمرانؔ عُمر گزری ہے بیماریوں کے بیچ
اب کے وہ دُکھ ملا کہ، مسیحا بنا دیا
محمد عمران چیمہ
۹ اگست ۲۰۱۹
چیمہ ہاؤس
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem